ہندوستان، ایشیا پیسیفک خطے میں سب سے زیادہ کروڑپتی افراد کی تعداد کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر ہے اور یہاں ایک ملین ڈالر یا اس سے زیادہ سرمائے کے حامل افراد کی تعداد 2لاکھ 36 ہزار ہے تاہم جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ادارے’ نیو ورلڈ ویلتھ‘ کی رپورٹ کے مطابق وہاں امیر اور غریب کے درمیان فرق انتہائی زیادہ ہے۔
چین اور جاپان کے بعد ایشیا میں ہندوستان ارب پتی افراد کی تعداد میں مسلسل اضافے کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں ملکی معیشت میں کس قدر ترقی ہوئی ہے۔
مگر ساتھ ہی سرمائے کی دوڑ میں اوپر اور نیچے والوں کے درمیان فرق بھی شدید ہو گیا ہے۔ سرمائے کی تقسیم میں یہ تفریق ہندوستان کی تمام تر اقتصادی ترقی کے باوجود غریبوں کی زندگیوں کو بدلنے میں بہت حد تک ناکام رہی ہے۔
معاشی عدم استحکام کو جانچنے کے لیے جینی کو ا یفی شنٹ کا معیار استعمال کیا جاتا ہےجس میں’ زیرو‘ مساوت اور 100 مکمل عدم مساوات کو ظاہر کرتا ہے۔
جرمن
نشریاتی ادارے ’ڈوئچے ویلے ‘نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ مذکورہ انڈیکس میں بھارت سن 1993ء میں آٹھ اعشاریہتیس پر تھا مگر 2009ء میں نو اعشاریہ تینتیس ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے بعد کا ڈیٹا عالمی بینک کے پاس موجود نہیں ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ حکومت کی جانب سے اقتصادی ترقی کے لیے ترتیب دی گئی پالیسیوں نے معاشی عدم مساوات کے بڑھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
سن 1990ء کی دہائی میں ہندوستان نے اقتصادی ترقی کے لیے اہم اصلاحات کا اعلان کیا تھاجس میں مارکیٹوں کو ڈی ریگولیٹ کرنا، درآمدی محصولات میں کمی اور کچھ شعبوں میں غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے راہ ہم وار کرنے جیسے اقدامات شامل تھے۔
ان اصلاحات کی وجہ سے کئی ملین ہندوستانی شہری غربت کے دائرے سے باہر نکلے جب کہ ان اصلاحات کا بہت زیادہ فائدہ کچھ خاص اداروں اور کمپنیوں کو بھی ہوا جو اپنے سرمائے کو دن دوگنا رات چوگنا بناتے ہوئے بے انتہا سرمایے کی مالک بن گئیں۔
ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کی آبادی کا ایک فیصد امیر طبقہ مجموعی ملکی دولت کے 53 فیصد کا مالک ہے